ہم جہاں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے احسن طریقے سے نبرد آزما ہوتے تھے۔ وہیں پر اپنی زندگیوں کو خوشگوار بھی بنانے کے مواقع ضرور نکالتے تھے۔زندگی دکھ اور سکھ کا نام ہے۔ ماضی میں جہاں انسان خوشیوں سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ وہاں تلخ تجربے بھی اس کا ورثہ بنتے تھے
آپ کس لئے زندگی کا شکوہ کرتے ہیں اور بد بختی کا رونا روتے ہیں‘ چند لمحوں کےلئے آنکھیں بند کر کے اپنی پچھلی زندگی کو لوٹا کر دیکھئے۔ آپ کو وہ دن یاد ہو گا۔
جب آپ چل پھر نہیں سکتے تھے۔ آپ رنگ برنگی چیزوں کو دور سے دیکھ سکتے تھے۔ لیکن ان کے قریب جانے اور انہیں چھونے کی ہمت آپ میں نہ تھی۔ پھر آپ جب اپنے سے بڑوں اور اپنے والدین کو چلتے پھرتے اور ہر چیز ان کے بس میں دیکھتے تھے تو آپ اپنی بے بسی پر روتے تھے۔ چلاتے تھے۔ دور پڑی چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے تھے۔ ایسے میں آپ کی چاہت اور کچھ پالینے کی خواہش کو محسوس کرتے ہوئے آپ کے بڑے آپ کو اپنی گود میں اٹھا کر یا آپ کو انگلی سے پکڑ کر وہاں تک پہنچانے میں آپ کی مدد کرتے تھے۔ تب آپ کتنے خوش اور دل ہی دل میں اپنے بڑوں کا کتنا شکریہ ادا کرتے اور خوش ہوتے تھے۔
اب کیا ہے! اب آپ کے دل میں وہ تمنا کیوں نہیں جاگتی کہ میں اپنی وہ الجھنیں‘ اپنی ناتجربہ کاری اور اپنی نو عمری کے سبب پیش آمدہ مسائل اپنے بزرگوں سے بیان کر کے انہیں حل کرنے کی سعی کروں ۔ ” اچھا کل کرلوں گا“ کہہ کر اپنا آج کیوں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یاد رکھئے میرے نوجوان ساتھیو! یہ بزرگ اور سیانے لوگ جو اپنی عمر ماں ‘ باپ ‘ استاد‘ فنکار اور عالم کی شکل میں گزار چکے ہیں‘ مصائب و آلام کی بھٹی میں تپ کر کندن بن چکے ہیں۔ ان کے پاس ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا شافی و کافی حل موجود ہوتا ہے۔ وہ آپ کی رہنما کرنے کےلئے ہر وقت تیار بیٹھے اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کی یہ نوجوان اولاد آئے اور ان سے اپنی غرض بیان کرے۔
بہت سے بزرگ بہت سے والدین آپ کی بے چینی‘ مشکلات و مصائب اور الجھنیں دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے ہیں کہ آخر یہ ہمارے نوجوان ہم سے اغماز کیوں برت رہے ہیں اور ہم سے رہنمائی کیوں لینا نہیں چاہتے۔ دور جدید ضرور ہے لیکن مشکلات تو وہی پرانی اور روزمرہ کے مسائل وہی پہلے جیسے ہیں۔ لیکن ہم تو اس طرح ہروقت متفکراور پریشان نہیں رہتے تھے۔ ہم جہاں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے احسن طریقے سے نبرد آزما ہوتے تھے۔ وہیں پر اپنی زندگیوں کو خوشگوار بھی بنانے کے مواقع ضرور نکالتے تھے۔زندگی دکھ اور سکھ کا نام ہے۔ ماضی میں جہاں انسان خوشیوں سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ وہاں تلخ تجربے بھی اس کا ورثہ بنتے تھے۔ ماضی میں ان کی زندگیاں زیادہ آسان سہل سادہ تھیں۔ جب کہ آج ماضی کے مقابلے میں دنیا اتنی سکڑ گئی ہے کہ لمحوں میں لاکھوں میل کے فاصلے پر ہونے والے واقعات ہم دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ سفر کےلئے ہوائی جہاز‘ تیز رفتار گاڑیاں اور چاند تک سفر کےلئے راکٹ تو وجود میں آ گئے ہیں لیکن جوں جوں یہ آسائشیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ پریشانیوں کی فہرست میں اضافہ بھی اتنی ہی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ چہروں پر شکنوں میں اضافہ اور صحت بدنی و نفسیاتی روبہ زوال ہے۔
دور جدید کے مسائل سے نبٹنے کےلئے آپ کی اپنی ذات تنہا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کےلئے کسی ایسے فرد کی مدد حاصل کیجئے جو آپ کی اپنے تجربات کی روشنی میں رہنمائی کر سکے۔ آپ کی خود اعتمادی اور قوت فیصلہ بڑھانے میں مدد گار ہو۔ ورنہ آپ اکیلے مسائل سے مقابلہ کرتے کرتے نفسیاتی مریض بن جائیں گے۔ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ باہمی مشاورت کو رواج دیجئے۔ جو ہمارے بزرگوں اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے۔ جو بڑے بڑے گھمبیر مسائل کا باہم مل بیٹھ کر حل نکال لیا کرتے تھے۔ اور ان کی زندگیاں جو حال کے مقابلے میں ہمیں زیادہ حسین اور آسان نظر آتی ہیں۔ اس باہمی مشاورت کا نتیجہ ہی تو تھیں۔
والدین کا فرض
:بچے کو آسمان سے زمین پر لانے کےلئے باپ بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی آغوش اور بچے کو زمین سے آسمان کی بلندیوں پر پہنچانے والا استاد۔ یہ تین بڑے کردار ہیں جو انسانی شعور و فن کی بنیاد رکھتے ہیں ‘ لیکن یہ بات بھی اب قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے ۔ دور جدید کی ایجادات نے ان تین اہم کرداروں اور لڑکے لڑکیوں کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی ہے اور یہ تینوں کردار اپنے بیٹے بیٹیوں کے اندر جھانک کر ان کی ضروریات کا ادراک نہیں کر پا رہے۔ وہ ایک دوسرے کے قریب رہ کر بھی ایک دوسرے سے بہت دور دور اور لا تعلق سے ہو کر رہ گئے ہیں اور کھلے دل سے حال چال لینے ‘ دینے ‘ باہم دوستانہ مراسم نہ رکھنے کی وجہ سے فریقین باہم کھل نہیں پاتے۔ چاہتے ہوئے بھی ایک پردہ سا پڑا رہتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے نگاہیں چراتے رہتے ہیں جبکہ آج کی نوجوان نسل کو اپنے کاروبار اور معاشرتی زندگی میں آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ بلا خوف و خطر نتائج کی پرواءکئے بغیر اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے تجربات کی بنادی پر ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا شروع کردیں۔ بالکل ایسے جیسے آپ نے بچپن میں ان کی رہنمائی کی۔ انہیں اٹھنا‘ بیٹھنا اور چلنا سکھایا۔ قمیض ‘ شلوار‘ درزی‘ دھوبی‘ دوا فروش‘ معالج‘ کتابوں کی دکان اور سکول کا فرق سکھایا۔ اسی طرح اب اسے اچھے برے کی تمیز سمجھنا بھی سکھائیے۔ بچپن میں آپ نے صرف بچے کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے اسے گود میں اٹھا کر ہر اس چیز کے قریب کر دیا تھا اسی طرح آج بھی اپنے بچوں کی معاشرتی ضروریات کو از خود محسوس کریں اور اس بات کا انتظار نہ کریں کہ وہ اپنے مسائل آپ سے از خود بیان کرے۔ یاد رکھئے عمروں کا وہ فرق جو آپ اور بچے میں اس وقت تھا وہ آج بھی موجود ہے۔
آپ کو کرنا صرف یہ ہے کہ اچھی کتاب تک اس کی رہنمائی کر دیں تاکہ وہ بازاری اور گھٹیا کتابوں سے دور رہ کر کسب فیض کر سکے۔ اچھے دوستوں تک اس کی رسائی کو ممکن بنانا ہے تاکہ وہ بری محفل سے بچ کر اچھی اور محفوظ زندگی گزارنے کا اہل ہو سکے۔ آپ کو اسے ” آج“ میں جینے اور اسے بہتر اور سلیقے سے گزارنے کا فن دیناہے۔ تاکہ وہ آنے والے کل میں گم ہو کر نہ رہ جائے جو آج تک کسی کے قبضہ میں نہیں آ سکا۔ پھر دیکھئے آپ کی اور آپ کی اولاد کی زندگی کیسے آسان نہیں ہوتی اور آپ کے بچوں کے خیالات میں پختگی کیسے نہیں آتی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں